تراویح اور بلٹ ٹرین ملا

 تراویح اور بلٹ ٹرین ملا

حمیراعلیم 

تراویح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت ہے ایک حدیث کے مطابق:"فضل من قام رمضان، 1/380، الرقم: 1077، ومسلم في الصحیح، کتاب صلاة المسافرین وقصرها، باب الترغیب في قیام رمضان وہو التراویح، 1/524، الرقم: 761، وأبو داود في السنن

 " ایک رات نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسجد میں (نفل) نماز پڑھی تو لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اگلی رات نماز پڑھی تو اور زیادہ لوگ جمع ہوگئے پھر تیسری یا چوتھی رات بھی اکٹھے ہوئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو فرمایا: میں نے دیکھا جو تم نے کیا اور مجھے تمہارے پاس (نماز پڑھانے کے لئے) آنے سے صرف اس اندیشہ نے روکا کہ یہ تم پر فرض کر دی جائے گی۔ اور یہ رمضان المبارک کا واقعہ ہے۔"

نبی صلعم نے تین دن تک آٹھ رکعت تراویح پڑھائی اور صحابہ کے استفسار پر بتایا کہ روزانہ اس لیے نہیں پڑھائی کہ امت پر فرض نہ کر دی جائے۔آج ہم تراویح کو فرض کی طرح ہی ادا کر رہے ہیں اور وہ بھی بیس رکعت۔

   کچھ لوگ اس بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ بیس ہو گی تو کیا گناہ ہو گا؟ نوافل پڑھنے میں کیا حرج ہے؟ نماز پڑھنا تو باعث اجر ہے پھر کسی کو کیا اعتراض ہے؟ تو بات بالکل سیدھی اور صاف ہے دین تو بس وہی ہے جو قرآن میں مذکور ہے اور نبی صلعم نے کر کے دکھا دیا باقی آپ کی مرضی اور خوشی ۔

   ہمارے ہاں کئی مساجد میں پہلے رمضان سے تراویح کا اہتمام کیا جاتا ہے خصوصا آخری طاق راتوں میں محافل شبینہ بھی ہوتی ہیں۔اور آئمہ کرام کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر روز ایک پارہ ضرور تلاوت کر لیا جائے۔

   چند روز مجھے بھی تراویح باجماعت پڑھنے کا اتفاق ہوا۔لیکن یہ چونکہ خواتین کی جماعت تھی اس لیے بہت اچھی طرح نماز پڑھی گئی۔یقینا مرد حضرات بھی مساجد میں قرآن کی تلاوت سے مستفید ہوتے ہوں گے۔مگر ایک بات قابل غور ہے کہ کیا ہر روز تراویح میں صرف ایک پارہ اس طرح پڑھنا کافی ہے کہ مقتدیوں کو نہ تو کچھ سمجھ آئے نہ ہی خشوع و خضوع قائم ہو؟ آپ نے بہت سے عرب آئمہ کرام کی نماز کی ویڈیوز دیکھیں ہوں گی۔ جب وہ کسی جنت یا جہنم والی آیت یا کسی حکم والی آیت کی تلاوت فرماتے ہیں تو زاروقطار رونے لگتے ہیں۔وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ انہیں اس آیت کا مطلب سمجھ آ رہا ہوتا ہے۔

   سوشل میڈیا پر کچھ ایسی ویڈیوز بھی دیکھنے کو ملیں جن میں امام صاحب اس قدر تیزی سے تلاوت فرما رہے تھے کہ میں نے ابھی سبحان اللہ ہی پڑھا تھا اور ان کی رکعت بھی پوری ہو گئی۔ایسے بلٹ ٹرین آئمہ پاکستان میں بھی پائے جاتے ہیں۔جو یہاں تو امامت کروا لیتے ہیں لیکن جب کسی عرب ملک میں جاتے ہیں تو ان کی خاصی درگت بنتی ہے۔پچھلے دنوں ایک واقعہ سننے کو ملا۔

   کویت میں پاکستان کی ایک تعمیراتی کمپنی NC کو بھی چند سو مکانات کا ٹھیکہ دیا گیا۔وہاں کام کرنے والے پاکستانی ملازمین نے اپنے رہائشی کیمپ میں اپنے لیے ایک عارضی مسجد بنا لی اور باجماعت نماز کا اہتمام کیا

چار پانچ ماہ بعد رمضان المبارک آگیا۔اور وہاں تراویح پڑھانے کی ضرورت محسوس ہوئی

وہاں ان پاکستانیوں کے ساتھ ایک پاکستانی حافظ قرآن بھی موجود تھا مگر وہاں قانون کے مطابق تراویح پڑھانے والے حافظ صاحب حکومت سے طلب کئے جاتے ہیں۔حکومت کے بھیجے ہوئے حافظ صاحب کو کسی وجہ سے تین چار روز کی تاخیر ہو گئی تو پاکستانی حافظ نے تراویح پڑھانا شروع کر دی۔حکومت کی طرف سے بھیجا گیا حافظ بھی وہاں پہنچ گیا اور اتفاق سے عین اس وقت پہنچا جب پاکستانی حافظ تراویح پڑھا رہا تھا۔

تراویح ختم ہوئی تو عربی حافظ صاحب نے پاکستانی حافظ کو قریب بلایا اور کہا

"من اعطاک صلاحیۃ تلعب مع کتابنا قران الکریم ؟ "

‏" تمہیں کس نے یہ اختیار دیا کہ تم قرآن سے کھیل کھیلو؟

"ھل ترید تخلص المصحف فی لیلۃ الواحدہ؟ "

کیا تم اسے ایک ہی رات میں ختم کرنا چاہتے تھے؟"

پاکستانی حافظ صاحب حیران و پریشان ہو کر ادھر ادھر تکنے لگا۔ایک پاکستانی جو تھوڑی بہت عربی جانتا تھا پاس آیا اور اس نے ترجمہ کر کے

‏پاکستانی حافظ کو بتایا کہ عربی حافظ کیا پوچھ رہا ہے؟

پاکستانی حافظ نے جواب دیا میں نے کونسی غلطی کر دی؟

عربی حافظ جواب میں بولا

"ھل تقرون القران بھٰذا شکل مثل دراجہ الناریہ فت فت فت فت فت "

کیا تم لوگ قرآن کو اس طرح پڑھتے ہو جیسے موٹر سائیکل کی پھٹ پھٹ پھٹ پھٹ

‏اور مجھے ذرا یہ تو بتاؤ کہ تم کو تو میری زبان سمجھ آ نہیں رہی اور تم نے قرآن کیسے یاد کر لیا؟

بولو؟ 

کیا تم نے قرآن میں قرآن پڑھنے کے اصول نہیں دیکھے کہ قرآن کیسے پڑھا جاتا ہے؟

کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی کہ

‏سورہ الاسرا۔آیت106

اور ہم نے قرآن کو وقتا فوقتا اس لیے اتارا کہ تم مہلت کے ساتھ اسے لوگوں کو پڑھ کر سناؤ اور اس کا مطلب انہیں ذہن نشین کراؤ۔"

اور پھر ایک اور آیت نہیں دیکھی تم نے؟

‏سورہ المزمل۔آیت 4

"اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔"

پھر تم کیسے اس طرح بھاگم بھاگ چلے جارہے ہو؟ 

تم نے قرآن کو مقتدیوں کو ذہن نشین تو کرایا ہی نہیں۔ تم تو اسے ایک ہی رات میں ختم کرنے پر تلے ہوئے نظر آتے ہو۔"

پاکستانی حافظ صاحب نے ٹوٹی پھوٹی عربی میں کہا کہ 

‏" قسم ہے یا شیخ میں کچھ نہیں سمجھا کہ آپ کیا کہہ رہے ہو۔"

عربی حافظ نے جواب دیا کہ جب تم کچھ سمجھتے ہی نہیں تو پھر لوگوں کے آگے کیوں کھڑے ہوتے ہو؟ تم بہت تیزرفتاری سے قرآن پڑھتے ہو۔

یہ جو لوگ تیرے پیچھے کھڑے ہیں یہ سنتے ہوں گے، مگر سمجھ کچھ نہیں رہے ہوں گے

عربی حافظ نے کہا اگر آئندہ تم نے قرآن پاک کے ساتھ یہ کھیل کھیلا تو میں تمہیں پولیس کے حوالے کر دوں گا ۔"

ایسا ہی ایک واقعہ ایک بار ملائشیا میں بھی پیش آیا۔ہمارے تبلیغی جماعت کے کچھ اصحاب ملائشیا گئے اور نماز کی امامت کروائی۔انہوں نے سورہ کہف کی تلاوت کی اور پندرہویں پارے کے آخیر پر تلاوت ختم کر کے نماز ختم فرما دی۔جس پر ایک مقتدی نے انہیں پکڑ لیا اور پوچھا:" تم کیسے امام ہو کہ تم نے قرآن کو مذاق بنا رکھا ہے۔اللہ تعالٰی ایک واقعہ بیان فرما رہے ہیں اور تم نے اسے ادھورا چھوڑ کر نماز ختم کروا دی۔" 

اسے ایسا کہنے کا موقعہ اس لیے ملا کیونکہ وہ قرآن کو ترجمے اور تفسیر کے ساتھ پڑھتا تھا جبکہ ہمارے ہاں اسے بس رٹ لیا جاتا ہے۔بہت کم حفاظ کرام ہوں گے جو قرآن کے معانی ومطالب سے بھی واقف ہوں گے۔

   میری بھتیجی برٹش نیشنل ہے۔ایک بار اسکول میں ٹیچر نے بچوں سے پوچھا کہ آپ کو انگلش کے علاوہ کون سی زبانیں آتی ہیں تو اس نے جھٹ سے بتا دیا اردو، فرینچ اور عربی۔ٹیچر نے اسے پوچھا:" کیا تم ان تینوں زبانوں کو بولنے، سمجھنے اور لکھنے پر قادر ہو؟" جس پر اس نے اردو اور فرینچ کے بارے میں تو ہاں میں جواب دیا لیکن عربی کے بارے میں بتایا کہ وہ اسے صرف پڑھ سکتی ہے بول یا سمجھ نہیں سکتی کیونکہ ہماری مقدس کتاب اس زبان میں ہے۔اس جواب پر ٹیچر نے تعجب سے پوچھا:" تم کیسے اپنی مقدس کتاب کو پڑھتے ہو کہ اسے سمجھ نہیں پاتے۔" 

    اگر ہم تلاوت کا مطلب سمجھیں تو اس کا مطلب ہے قرآن کی قراءت اس طرح کرنا کہ اس کا مفہوم سمجھ آتا جائے۔جب ہم اپنی مادری زبان میں بات کرتے ہیں تو جملہ سنتے ہی مفہوم سمجھ لیتے ہیں اسے سمجھنے کے لیے وقت کی ضرورت نہیں ہوتی۔

    ایسے ہی ہمیں قرآن پڑھنے کا حکم ہے۔عہد رسالت میں جب قرآن پڑھا جاتا تھا تو سننے والوں کی کیا کیفیت ہوتی تھی

اللہ فرماتا ہے : سورہ المائدہ۔آیت 83

"اور جب یہ لوگ وہ کتاب سنتے ہیں جو ہم نے نازل کی اپنے پیغمبر پر تو ان کی

‏آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں ۔اس لیے کہ انہوں نے حق بات پہچان لی ہے۔"

    اور یہاں ہمارے ہاں جب قرآن پڑھا جاتا ہے تو سننے والوں پر غنودگی طاری ہورہی ہوتی ہے اور دل ہی دل میں دعا کر رہے ہوتے ہیں کہ جلدی جان چُھوٹے تو گھروں کو پہنچیں

کیونکہ ہم سمجھتے ہی نہیں کہ

‏کیا پڑھا جارہا ہے اور کیا کہا جارہا ہے

اللہ فرماتا ہے

سورہ الحشر آیت 21

"اور اگر ہم اسے کسی

‏پہاڑ پر نازل کر دیتے تو تم دیکھتے کہ اس کی خلاف ورزی کے احساس سے اس پر لرزہ طاری ہوجاتا اور ذمہ داری کے خیال سے وہ ریزہ ریزہ ہوجاتا۔" 

لیکن ہم پر نہ تو لرزہ طاری ہوتا ہے نہ ہمارے عمل میں تبدیلی آتی ہے وجہ یہی ہے کہ ہم نے قرآن کو صرف پڑھنے کی کتاب بنا رکھا ہے یا اس کے تعویذ، کیلیگرافی بناتے ہیں، دلہن اس کے سائے میں رخصت کرتے ہیں اور ثواب کی نیت سے اسے عطیہ کرتے ہیں۔

   آج سے کوشش کیجئے کہ خواہ ایک آیت ہی پڑھ سکیں ترجمے اور تفسیر کے ساتھ پڑھیں۔ہر آیت میں سے اپنے لیے کوئی عمل کی بات منتخب کریں اور اس پر عمل کی کوشش کریں اور اس سیکھنے کے عمل میں اپنے خاندان اور دوست احباب کو بھی شامل کریں۔اللہ تعالٰی ہمیں قرآن پڑھنے اسے سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

نوٹ: پلیز تراویح کے 8 یا 20 ہونے پر بحث مت کیجئے میں نے احادیث کا حوالہ درج کر دیا ہے۔ اگر کسی کے عمل میں قرآن حدیث پڑھ کر بھی تبدیلی نہیں آتی تو میری تحریر پڑھ کر بھی نہیں آئے گی۔اور میں کسی کو زبردستی عمل کروانا بھی نہیں رہی اس لیےاس بات پر توجہ مرکوز کیجئے جس کا ذکر کیا گیا ہے۔شکریہ

Comments

Popular posts from this blog

Cristiano Ronaldo Opens Up in Candid Interview with Piers Morgan

The Austrian swimming trials for the Paris 2024

Pakistan army becomes 7th most powerful army in the world